روزنامہ پاکستان، لاہور۲۹ جون ۲۰۰۴ء
خواب، بے چینی اور صحت کی تشویش
۲۰ جون کو میں واشنگٹن پہنچا۔ ایک دو روز بعد، فجر کی نماز کے بعد درس دے کر دارالہدٰی کی لائبریری میں سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ میں پاکستان میں ہوں اور اچانک اطلاع ملی کہ حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں گوجرانوالہ سے روانہ ہو کر ویگن کے ذریعے چنیوٹ پہنچا، وہاں دیکھا کہ مولانا کی میت چارپائی پر رکھی ہے اور اردگرد سوگوار حضرات بیٹھے ہیں۔ میں ان کے صاحبزادوں میں سے کسی کو تلاش کرنے لگا، کہ اسی دوران آنکھ کھل گئی۔
میرا چھوٹا بیٹا عامر خان، جو گزشتہ ایک سال سے دارالہدٰی (سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) کے کمپیوٹنگ شعبے سے وابستہ ہے، اس سے خواب کا ذکر کیا تو اس نے تسلی دی کہ عام طور پر خواب میں موت دیکھنے کا مطلب لمبی عمر ہوتی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد دارالہدٰی کے ڈائریکٹر، شیخ عبد الحمید اصغر آئے۔ جب میں نے ان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ایسے خواب سچے بھی ہو سکتے ہیں۔
اسی تذبذب اور بےچینی میں، میں نے مولانا چنیوٹی کے گھر چنیوٹ فون کیا۔ ان کے منجھلے صاحبزادے، مولانا محمد ادریس سلمہ سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا کافی بیمار ہیں اور لاہور ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ اگرچہ گزشتہ دو دن طبیعت خراب رہی، مگر اب سنبھل گئے ہیں اور حالت بہتر ہے۔ یہ سن کر کچھ اطمینان ہوا، لیکن دل میں کھٹکا رہا کہ اگر ملک سے میری غیر موجودگی میں مولانا کا انتقال ہو گیا تو میں ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکوں گا۔ چنانچہ وہی ہوا۔
افسوسناک خبر اور تعزیتی لمحات
۲۷ جون کو دارالہدٰی کی مسجد میں ظہر کی نماز کے بعد جب میں باہر نکلا تو ایک دوست نے اطلاع دی کہ مولانا چنیوٹی صاحبؒ کا انتقال ہو چکا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دفتر آکر عامر خان نے انٹرنیٹ پر پاکستانی اخبارات دیکھے تو روزنامہ نوائے وقت میں تفصیل سے خبر موجود تھی۔
اتوار کا دن تھا، دارالہدٰی میں چھٹی تھی۔ دفتر میں صرف تین افراد موجود تھے: مولانا عبد الحمید اصغر، راقم الحروف، اور عامر خان سلمہ۔ ہم نے کچھ دیر مولانا چنیوٹیؒ کی خدمات اور جدوجہد کو یاد کیا، ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ چنیوٹ فون کر کے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر ان کے کسی بیٹے سے بات نہ ہو سکی۔
میں نے مانچسٹر فون کر کے علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب سے تعزیت کی۔ تحفظ ختم نبوت(khatme nabuwat) کے محاذ پر ان کی مولانا چنیوٹیؒ کے ساتھ طویل رفاقت رہی تھی، اس لیے تعزیت ان کا حق تھا۔ ان سے فون پر طویل گفتگو ہوئی، اور ہم دونوں نے ایک دوسرے سے تعزیت کی۔ شکاگو میں مولانا چنیوٹی کے پرانے رفیق، ریاض وڑائچ صاحب کو فون کیا مگر وہ موجود نہ تھے، اس لیے ان کے نمبر پر تعزیتی پیغام ریکارڈ کروا دیا۔
آخری ملاقات، مکالمہ اور جدائی کا صدمہ
مولانا چنیوٹیؒ سے میری آخری ملاقات ۲۱ مئی کو فجر کے بعد ان کے گھر میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات کا ذکر میں نے اسی کالم میں ’’مولانا چنیوٹی کا نیا محاذ‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد ان کا فون آیا، جس میں انہوں نے اس میں ان کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی فرمایا کہ حضرت مولانا زین العابدینؒ کے بارے میں تمہارے کالم پڑھے ہیں، میرے بارے میں بھی جو کچھ لکھنا ہے ابھی لکھ دو تاکہ میں بھی جان سکوں کہ تم کیا لکھو گے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ اللہ کو معلوم ہے کہ میں نے آپ پر لکھنا ہے یا آپ نے مجھ پر۔ لیکن اگر موقع ملا تو ان شاء اللہ ضرور لکھوں گا۔ اس پر وہ ہنس دیے اور فون بند کر دیا۔ یہ ان سے میری آخری گفتگو تھی۔
آج وہ اپنے خالق کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا چنیوٹی کے جنازے میں شرکت نہ کر سکنے کا افسوس ہمیشہ رہے گا۔ پینتیس سال کی رفاقت کے بعد ہم ایک دوسرے سے رخصت ہوئے بغیر ملے۔ میں اپنے عظیم دوست اور بزرگ کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا۔
پہلی ملاقات، انقلابی خطابت اور پرانے غموں کی بازگشت
اسی قلق میں مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آیا: تقریباً پندرہ سال قبل شکاگو میں، میں اور مولانا چنیوٹی ریاض وڑائچ صاحب کے گھر مقیم تھے۔ اچانک میری سوتیلی والدہ، جنہیں ہم "چھوٹی امی” کہتے تھے، کے انتقال کی خبر آئی۔ وہ ہمیں سگی ماں جیسا پیار دیتی تھیں۔ میں جنازے میں شرکت نہ کر سکا اور بے بسی میں مبتلا تھا، تب مولانا چنیوٹی مجھے تسلی دیتے رہے۔ آج وہ خود اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں، اور میں ان کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا۔ اب مجھے کون تسلی دے گا؟
مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی کو میں نے پہلی بار طالب علمی کے زمانے میں دیکھا۔ یہ 1960ء کی دہائی تھی، جب میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں طالب علم تھا۔ مولانا چنیوٹی کا عروج کا دور تھا۔ وہ قادیانیوں کے خلاف کلہاڑی ہاتھ میں لے کر تین چار گھنٹے مسلسل تقریر کرتے۔ ان کی پہلی تقریر میں نے دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ کے جلسے میں سنی، جو ایک طوفانی یلغار تھی۔ ان کی للکار سے قادیانیوں کے کیمپ میں زلزلہ برپا ہو جاتا۔ ان کی گرج آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے۔
تحریک، رفاقت اور بے قراری کا انجام
جمعیۃ علماء اسلام میں میرا اور ان کا ساتھ طالب علمی سے شروع ہوا۔ وہ مجھ سے عمر، علم، اور تجربہ میں بڑے تھے، مگر کبھی احساس نہیں ہونے دیا۔ اگر میں نے کبھی فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے پسند نہ کیا۔ ہماری تیس سالہ رفاقت ایک مستقل باب ہے، جو ان شاء اللہ زندگی اور توفیق رہی تو لکھا جائے گا۔
آج میں ان کے صرف ایک پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں: وہ ایک بے قرار روح تھے، جنہوں نے ساری زندگی اس تڑپ میں گزاری کہ معاشرے میں اسلام کی بالادستی کب قائم ہو گی۔ ان کی نظریں عمر بھر ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے امکانات تلاش کرتی رہیں۔ قادیانیوں کی ہر حرکت پر ان کا دل دھڑکنے لگتا، اور عقائدِ اسلام کی توہین پر ان کا وجود غیرت سے لرزنے لگتا۔
آج وہ بے چینی کا پیکر مٹی تلے سو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کی خبر سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون کے بعد میرے لبوں پر پہلا جملہ یہی آیا:
"عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا۔”
اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل دے، آمین یا رب العالمین۔