والدین نے منظور احمد“ نام رکھا جو ”چنیوٹی“ کے نام سے چنیوٹ کی پہچان بن گیا۔ عوام نے مجاہد ختم نبوت ، شورش کاشمیری ؒ نے سفیر ختم نبوت اور انہوں نے خود اپنے لیے ”خادم ختم نبوت“ کا لقب تجویز کیا۔ جب کہ تاریخ انہیں ”تاریخ ساز“ کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔ ابتدائی تعلیم چنیوٹ اور اعلیٰ تعلیم جامعہ اسلامیہ ٹنڈو اللہ یار (سندھ) سے حاصل کرکے 1952 میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ 1954 میں جامعہ عربیہ ، 1970 ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ ، 1990ادارہ دعوت وارشاد(امریکہ) شروع کیا اور جہد مسلسل سے جہاد ختم نبوت کے آسمان پر ایک ستارےکی مانند چمکنے لگے۔1953 کی تحریک ختم نبوت کے روح رواں تھے۔ عنفوان شباب سے ہی اکثرختم نبوت کی خاطر قید و بند کاسلسلہ اس طور پر جاری رہا کہ حضرت مولاناعبد الحفیظ مکیؒ نے اس ”نشان امتیاز“سے نوازا کہ ”پاکستان میں ختم نبوت کے لیے آپ نےسب سے زیادہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔“ اندرون و بیرون ملک ہر پلیٹ فارم پر سکولز،کالجز، یونیورسٹیزاور عدالتوں حتّٰی کہ اسمبلیوں میں بھی مشن ختم نبوت کی ترجمانی کی۔ 1974 کی تحریک ختم نبوت کے دوران رابطہ عالم اسلامی کی انٹر نیشنل کانفرنس میں شریک ہوئے اور عالم اسلام کے علماء کو مسئلہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سنجیدگی اور اہمیت سے آگاہ کیا جس کے نتیجہ میں تمام ممالک اسلامیہ کے علماء و فقہاء نے متفقہ طور پر قادیانیت کے کفر کا فتویٰ دیا۔ دارالعلوم دیوبند اور مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب میں لیکچرز دیے اور ختم نبوت کورسز کروائے ۔بیسیوں مناظرے کیے جس میں سے صرف ایک مناظرہ ”ابادان“ میں بیک وقت سینکڑوں قادیانیوں کو قبول اسلام کا شرف حاصل ہوا۔ دنیا کے مشرق و مغرب ، شمال و جنوب کے کونے کونے پہنچ کر عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور فتنہ قادیانیت کا تعاقب کیا اور بال آخر ”پرتگال“ مغرب میں دنیا کے آخری کنارے کھڑے ہوکر یہ دعا مانگی: ” اے اللہ آج ہم بھی طارق بن زیاد کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کے آخری کنارے تک تیرے آخری نبی ﷺ کی آخری نبوت (ختم نبوت) کا پیغام پہنچانے کے لیے یہ تیرے عاجز بندےپہنچ گئے ہیں ۔ایک طرف دنیا کا آخری کنارہ جہاں دنیا سے شروع ہوتی ہے ، ”جزائر فجی“ وہاں تک حضور علیہ السلام کی ختم نبوت کا پیغام پہنچایا اور جھوٹی نبوت قادیانیت کا تعاقب کیا ، دوسری طرف کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ ) جو جنوب میں دنیا کا آخری شہر ہےوہاں پہنچ کر بھی تیرے نبی کی ختم نبوت کا مقدمہ لڑا ،اور قادیانیت اور جھوٹے نبی مرزا قادیانی کاکفر ثابت کرکے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی ۔ آج مغرب کے آخری کنارہ پر پہنچ گئے ہیں۔ جہاں زمین ختم ہو رہی ہے یہاں پر بھی حضور علیہ السلام کے پرچم کو بلند کیا ہے اےاللہ شمال مغرب کے آخری کنارہ ناروے تک بھی پہنچ چکا ہوں اسے قبول فرما “ ؎ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے آپؒ 1985ء،1988ء اور 1997ء میں ممبر پنجاب اسمبلی ایک بار رئیس بلدیہ چنیوٹ بھی منتخب ہوئے۔ ہر حیثیت میں ختم نبوت کے لیے جہاد جاری رکھا، مرزائیت کو غیر مسلم قرار دلوانے اور ”ربوہ“ کو چناب نگر میں تبدیل کروانے تک کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔ان حقائق کا انکار کرنے سے تاریخ عاجز و بے بس ہے۔ دنیا کے آخری کنارے تک ختم نبوت کا پیغام پہنچانے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ تعلیمی اعتبار سے کسی شخصیت کی تکمیل کے لیے دینی و عصری علوم لازم و ملزوم ہیں لہٰذا 1991 میں اس نظریہ کے ساتھ کہ ” اب ایک ایسی انٹرنیشنل یونیورسٹی کی ضرورت ہے جس میں دینی و عصری (جدید سائنسی) علوم خصوصاً ختم نبوت کی اعلیٰ تعلیم دی جائے ۔“ آپ نے ”انٹر نیشنل ختم نبوت یونیورسٹی“ چنیوٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔”دی ختم نبوت انسٹیوٹ آف ماڈرن سائنسز“(دی کمز)اس عظیم مشن کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے جہاں اس وقت دینی و عصری تعلیم کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ؏”خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را“ 27جون 2004 بروز اتوار اس جہان فانی سے اس شان کے ساتھ رخصت ہوئے کہ اک زمانہ سر جھکا کے پیچھے چل رہا تھا۔ پہلا جنازہ جامعہ اشرفیہ لاہور اور دوسرا جنازہ اسلامیہ کالج چنیوٹ میں ہوا۔ جہاں لاکھوں سوگواروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر تاثرات کی کتاب میں آپ کے دیرینہ ساتھی حضرت مولانا زاہد الراشدی نے کیا خوب لکھا : ”زندگی بھر کی بے قراری کو آخر قرار آ ہی گیا“ آپ کی شبانہ روز انتھک محنت سے آج دنیا بھر میں کئی ادارے ،سینکڑوں مضامین ومقالات، تقاریر وتصانیف، ہزاروں شاگرد اور لاکھوں عقیدت مند قیامت تک ان کے اس مشن کو جاری رکھنے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔ ؏”آسماں تری لحَد پر شبنم افشانی کرے“ تحریر کردہ : شہباز حسین